بڑا فیصلہ۔۔۔۔90 دن کے اندر انتخابات کرانے کا حکم۔۔۔۔کیا متفقہ فیصلے میں ابہام ہے؟
سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا انتخابات کے معاملے میں ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنادیا ہے۔ بڑے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے نوے دن کے اندر انتخابات کرانے کا حکم جاری کیاگیا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے محفوظ فیصلہ سنایا۔
عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔یہ فیصلہ تین، دو کے تناسب سے دیا گیا ۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے جنرل انتخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے، آئین میں انتخابات کے لیے 60 اور 90 دن کا وقت دیا گیا ہے، اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہیں، پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔
گورنرکو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیےگئے، گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، دوسرا وزیراعلیٰ کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں، آئین کا آرٹیکل 222 کہتا ہےانتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے، الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کی اعلان کا اختیار دیتا ہے، اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنرکرےگا، اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت اسمبلی تحلیل کریں گے۔
صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے، انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے،گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا، الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے، الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں، ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہئیں۔
عدالت عظمیٰ کا کہنا ہےکہ الیکشن کمیشن صدر اورگورنر سے مشاورت کا پابند ہے، 9 اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ نے حکم دیا ہےتمام وفاقی اور صوبائی ادارے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں، وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے، عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔
’’ ججز کا اختلافی نوٹ‘‘
سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق فیصلے پر بنچ کے 2 ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا اور اختلافی نوٹ لکھا۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھے جس میں کہا گیا ہے آرٹیکل 184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں، عدالت کو اپنا 184/3 کا اختیار ایسے معاملات میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ انتخابات پر لاہور ہائیکورٹ فیصلہ دے چکی، سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں زیر التوا معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتی، پشاور اور لاہور ہائیکورٹ نے 3 دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے انتخابات پر ازخود نوٹس کی درخواستیں مسترد کرتے ہیں، اس معاملے پر از خود نوٹس بھی نہیں بنتا تھا، 90 دن میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔پنجاب اور خیبر پختونخوا میں الیکشن سے متعلق از خود نوٹس کے فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ شامل ہے۔
اختلافی نوٹ میں ججز نے لکھا ہے پہلے سے 2درخواستیں موجودتھیں ۔پہلے سےموجود درخواستوں کے باوجود ان درخواستوں کو جلدی سننے کی کوشش کی گئی۔اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ظہور الہٰی اور بے نظیر بھٹو کیس کے فیصلے اس بارے میں واضح ہیں۔جب ایک درخواست موجود ہو تو پھر اس کیس میں جلدی نہ ہو۔از خود نوٹس لینا نہیں بنتا۔
اختلافی نوٹ کے مطابق ہائیکورٹس میں اسی طرح کا کیس زیر سماعت ہے۔90روز میں انتخابات کرانے کی درخواستیں مسترد کی جاتی ہیں۔سپریم کورٹ ایک ایپکس کورٹ ہے اس کو ان معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔اختلافی نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی ایسی مداخلت صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہے۔23فروری کو جسٹس یحییٰ آفریدی اور اطہرمن اللہ نے جو نوٹ دیا اس پر ہم مطمئن ہیں۔اختلافی نوٹ میں ہدایت کی گئی ہے کہ ہائیکورٹس3 روز کے اندر کیس کا فیصلہ کریں۔پشاور اور لاہور ہائیکورٹ تین دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔
دوران سماعت کیا ہوا؟
عدالت میں از نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اسمبلی کی تحلیل پر سوال اٹھایاگیا تھا۔جسٹس منصور نے کہا تھا کہ اسمبلیاں کسی کی ڈکٹیشن پر ختم ہوسکتی ہیں؟ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا تھا کہ یہ ازخود نوٹس نہیں بنتا،چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ انتخابات کا مسئلہ وضاحت طلب ہے۔نمائندے 5 سال کیلئے منتخب ہوتے ہیں تو کسی شخص کی ہدایت پر اسمبلی تحلیل کیسے ہوسکتی ہے؟
فاروق نائیک نے پی ڈی ایم جماعتوں کا مشترکہ تحریری بیان پڑھ کر سنایاتھا۔پی ڈی ایم نے جسٹس اعجاز اور جسٹس مظاہر پر اعتراض اٹھایاتھا۔چیف جسٹس نے اس پرکہاتھا کہ آج ہمارے دروازے پر آئین پاکستان نے دستک دی ہے اس لیے ازخود نوٹس لیا۔جسٹس جمال مندوخیل کاکہنا تھاکہ سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہیے۔
تیسرے سماعت میں 9 رکنی بینچ سے 4 ججز علیحدہ ہوگئے۔چیف جسٹس نے بینچ کی ازسر نو تشکیل کرکے اسے 5 رکنی کردیاتھا۔
چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ پارلیمنٹ نے الیکشن ایکٹ میں صدر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار دیا ہے۔اگر انتخابات کیلئے حالات سازگار نہیں تو وجوہات بتائی جائیں۔جسٹس منیب نے کہا بعض حالات میں الیکشن کی تاریخ دینا گورنر اور بعض میں صدر کی ذمہ داری ہے۔
میری رائے میں گورنرکی صوابدید یہ ہےکہ فیصلہ کرے اسمبلی تحلیل ہوگی یا نہیں ہے۔جسٹس مظہر نے کہا تھا کہ کوئی ایسی آئینی شق نہیں جو الیکشن میں90 دن کی تاخیرجسٹیفائی کرے۔
اگلی سماعت میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دئے کہ صدر ہو یا گورنر سب ہی آئین اور قانون کے پابند ہیں۔ جسٹس جمال کاکہنا تھا کہ آرٹیکل48 کے مطابق صدرکا ہرعمل حکومت کی سفارش پر ہوگا۔جسٹس مظہر نے کہا تھا کہ صدر انتخابات کی تاریخ نہیں دے سکتے تو سیکشن57 ختم کیوں نہیں کردیتے؟ ۔الیکشن کمیشن کے وکیل کےمطابق پہلے دن سے ہی موقف ہے کہ تاریخ کا اعلان گورنر کو کرنا ہے۔
’’الیکشن از خود نوٹس چار،تین سے مسترد ہوگیا ‘‘
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ آج کا فیصلہ واضح ہے۔ دو ججز نے کہا کہ جو فیصلہ پہلے دو ججز نے دیا ان کی بھی وہی رائے ہے۔ ہمارا موقف ہے یہ پیٹیشن چار، تین سے ریجیکٹ ہوگئی ہے۔ اس حوالے سے مزید کسی رائے کی ضرورت نہیں۔ یہ بنیادی طور پر سات رکنی بینچ تھا۔ دوججز نے رضا کارانہ طور پر خود کو الگ کرلیا تھا۔سب سے زیادہ قانون صدر نے توڑا ہے جنہوں نے فیصلہ کرکے تھونپا اور پھر اسے واپس لے لیا۔ دونوں ہائیکورٹس میں معاملات ابھی لینڈنگ ہیں۔ وہیں پرتشریح ہوگی۔
ہم آن ریکارڈ کہہ رہے کہ کوئی الیکشن سے نہیں بھاگ رہا۔ ہمارے وکیل نے کہا ہے کہ 35 ارب روپے کی لاگت سے ڈیجیٹل مردم شماری ہورہی ہے۔آئین کی خلاف ورزی گورنرز نے نہیں، بلکہ صدر مملکت نے کی ہے۔ صدر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ انہوں نے غلط حکم دیا تھا۔فیصلے پر نظرثانی درخواست کی ضرورت نہیں، فیصلہ واضح ہو تو نظرثانی درخواست کی ضرورت نہیں ہوتی، 2 ججز نے پہلے ہی معاملے کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی کہا اعتراضات پر 2 ججز نے خود کو بینچ سے الگ کیا تھا، باقی 7 ججز میں سے 2 نے پہلے درخواستیں خارج کی تھیں، چیف جسٹس نے نیا بینچ تشکیل دیتے ہوئے دیگر 5 ججز کو شامل کیا، فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو انتخابات کرائے جائیں، انتخابات کی تاریخ ماضی میں بھی آگے پیچھے ہوتی رہی ہے، تاہم یہ ضرور ہے کہ انتخابات جب بھی ہونگے، ہم حصہ لیں گے۔ دیگر کورٹس میں جاری سماعت پر اعظم نذیر کا کہنا تھا کہ پشاور اور لاہور ہائی کورٹس اپنی سماعت جاری رکھیں گی، ہائیکورٹس میں مقدمات زیرالتواء ہیں وہ اس کی تشریح کریں گی۔صدر پر تنقید کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی گورنرز نے نہیں، صدر نے کی ہے۔ صدر نے عدالت میں تسلیم کیا کہ انہوں نے غلط حکم دیا تھا۔
اٹارنی جنرل آف پاکستان شہزاد الٰہی نے کہا فیصلے پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں، نہ ہی یہ تشریح طلب معاملہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا اس لیے ہے کیونکہ فیصلہ بہت واضح ہے اور کوئی ابہام بھی نہیں ہے، یہ کوئی ہار جیت یا اہلیت اور نااہلی کا کیس نہیں تھا۔
ایک آئینی نکتے پر بحث ہوئی جس میں 2 جج صاحبان نے خود کو رضاکارانہ طور پر بینچ سے علیحدہ کرلیا، 7 جج صاحبان میں سے 2 جج صاحبان 23 تاریخ کو اپنا فیصلہ دے چکے تھے کہ ہم ان پٹیشنز کا خارج کرتے ہیں، یہ قابل سماعت نہیں ہیں۔ شہزاد الہیٰ کے مطابق ہم نے اس کارروائی میں مکمل تعاون کیا، کوئی تاریخیں نہیں مانگیں۔
حقائق سب کے سامنے ہیں، معاملہ 9 رکنی بینچ سے شروع ہوا اور 5 رکنی بینچ تک آگیا، جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے 23 فروری کو ہی اپنے نوٹ میں ان دونوں پٹیشنز کو مسترد کردیا تھا۔ 5 رکنی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس میں جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ اس کیس کے ریکارڈ میں 5 نہیں 7 ججز صاحبان کے فیصلے موجود ہیں۔
’’ فیصلہ آئین کی فتح ‘‘
پی ٹی آئی رہنما فواد چودھری نے عدالتی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج کا فیصلہ آئین کی فتح ہے اور یہ ایک متفقہ فیصلہ ہی ہے۔ ہمارے موقف کو پانچوں ججوں نے تسلیم کیا ہے، ہماری نظر میں یہ ججمنٹ پانچ صفر سے ہے۔ پنجاب کے الیکشن کا اعلان صدر کریں گے اور کے پی میں گورنر الیکشن کا اعلان کریں گے۔ عدالت نے وفاق کو سکیورٹی اور تمام وسائل فراہم کرنے کا پابند کیا ہے اور یہ سب 90 روز میں ہونا ہے۔
’’ قوم الیکشن کی تیاری کرے‘‘
شیخ رشید کاکہنا ہے کہ قوم الیکشن کی تیاری کرے۔آئین وقانون جیت گیا ہے۔ پنجاب اور کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت بنے گی۔ آج پاکستان کی جمہوری تایخ کا اہم ترین دن ہے۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آئی ایم ایف نے 98 جیسی 4 مزید سخت شرائط کا مطالبہ کیا ہے۔پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے ٹویٹ کیا کہ آج کا فیصلہ جمہوریت اور آئین کی فتح ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ وہ سیاسی جماعتیں جو انتخابی میدان سے فرار اختیار کر رہیں تھیں انہیں اب عوامی احتساب کا سامنا کرنا ہو گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بارے میں کہاجارہا ہے کہ کچھ ابہام ہے،یہ آئینی اور قانونی سے زیادہ سیاسی لڑائی ہے۔تاہم سیاسی مینڈیٹ کو تسلیم کرنا پڑے گااورمعاملہ گورنر ، صدراور الیکشن کمیشن کی مشاورت سے ہوگا۔سپریم کورٹ نے راستہ دکھادیا ہے۔اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیںہے۔تاہم سیاسی جماعتوںکو بھی مل بیٹھ کر معاملہ حل کرنا ہوگا۔ایک سوال یہ ہے کہ اگر اس فیصلے کا ریویوہوگا توبھی ابہام سپریم کورٹ نے ہی دور کرنا ہے کہ بینچ کتنے رکنی ہے۔
It really was a historic day
ReplyDelete